میرے
سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک سرمئی رنگ کی مچھلی مومو کی جو گہری سبز جھیل میں
رہا کرتی تھی۔مومو کا گھر ایک پتھر کے پیچھے تھا۔ اس پتھر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پودے
اگے ہوئے تھے۔ ایک دن مومو اپنے گھرمیں کھڑکی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ صبح کا وقت تھا۔
تیز دھوپ پانی کے نیچے تک آرہی تھی۔ اچانک ساتھ والے پودوں میں کچھ حرکت ہو ئی۔ جب
مومو نے غور کیا تو اس نے دیکھا۔وہ ایک چھوٹا سا کچھوا تھا جو اپنا سامان سرخ پودے
کے نیچے رکھ رہا تھا۔ ایک پلنگ، ایک کھانے کی میز، کرسی اور چھوٹا سا لیمپ۔
’’آہا!
میرا نیا پڑوسی۔ چلو اس کو کچھ کھانے کے لیے دے آتی ہوں۔ بے چارہ نہ جانے کتنے لمبے
سفر سے آیا ہے۔‘‘ مومو نے سوچا اور الماری سے نئے بسکٹ نکال کر گھر سے نکل گئی۔
’’کیا
میں اندر آسکتی ہوں؟‘‘
اس
نے ایک پودے کے پیچھے رک کر پوچھا۔
’’کیوں
نہیں بہن۔ ضرور آئیے۔‘‘
کچھوے
نے کہا اور کرسی مومو کے لیے خالی کر دی۔
مومونے
بسکٹ کی پلیٹ کچھوے کی میز پر رکھی اور بولی۔
’’میرا
نام مومو ہے۔یہ میری طرف سے ہے۔ آپ کو کوئی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیں۔ میرا
گھر یہ پتھر کے پیچھے ہے وہ بڑی سی کھڑکی والا۔‘‘ مومو نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا ۔
کچھوے
نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
’’ٹھیک
موموبہن! آپ کا شکریہ! ‘‘
ایک
دن مومو سو کر اٹھی تو اس کے گھر کے سامنے ریت کا ایک چھوٹا سا ڈھیر پڑا تھا۔
’’اوہ۔
یہ کس نے میرے گھر کے سامنے کچرا پھینکا؟‘‘ یہ کہہ کر مومو نے ادھر ادھر دیکھا۔ اسے
کوئی نظر نہ آیا۔
’’یہاں
ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا۔ ضرور یہ کچھوے کی شرارت ہو گی۔پہلے یہاں جو
کیکڑا رہتا تھا وہ بھی یہی شرارت کرتا تھا۔ میں بھی کون سا کمزور ہوں۔ ابھی دیکھو کچھوے
میاں۔ میں کیا کرتی ہوں۔ ‘‘
مومو
نے غصے سے سوچا، پودوں کے پتے توڑےاور کچھوے کے گھر کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔ پھر منہ
سے بھر بھر ریت بھی ڈال دی۔اب کچھوے کے گھر کے سامنے اچھا خاصا کچرا اکھٹا ہو گیا تھا
۔
اگلے
دن صبح سے شام ہو گئی اور پھر رات بھی۔ لیکن کچھوا گھر سے نکلا نہ اس کی طرف سے کوئی
جوا ب آیا۔ اس سے اگلی صبح اسے ایک آواز آئی تو مومو نے دیکھا۔
پتھر
کے اندر رہنے والا ایک کیڑا ریت کی ٹوکری سر پر رکھ کر لا رہا تھا۔ بار بار وہ گر جاتا
لیکن ہمت نہ ہارتا۔ اس نے وہ ٹوکری مومو کی کھڑکی کے آگے لا کر خالی کر دی۔
’’ارے
ارے! یہ کیا کر رہے ہو بیٹا؟‘‘
مومو
نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے حیرت سے کہا۔
’’آنٹی
میں اپنے گھر کی صفائی کر رہا تھا۔ یہ ریت فالتو تھی اسی لیے میں نے یہاں رکھ دی۔ویسے
آنٹی! آپ کیکو انکل کے گھر گئی ہیں؟ وہ پرسوں سے بیمار ہیں اور اپنے گھر سے نہیں
نکلے ہیں۔میرے پاس جتنا کھانا تھا وہ میں نے ان سے شئیر کر لیا ہے۔ اب میں ان کے گھر
نہیں جاؤں گا ۔ یہ نہ ہو وہ مجھے ہی کھا جائیں!‘‘ باتونی کیڑے نے ہنستے ہوئے کہا اور
دوبارہ پتھر کے اندر چلا گیا۔
’’اوہ!
اوہ!‘‘
مومو
کو ساری بات سمجھ میں آگئی۔ کیکو توپرسوں سے گھر سے ہی نہیں نکلا تھا۔ وہ بیمار تھا۔
ریت کا وہ ڈھیر کیکو نے نہیں بلکہ کیڑےنے رکھا تھا۔ وہ سمجھی کہ کیکو نے اس کے گھر
کے آگے کچرا پھیلایا ہے۔ اس ناسمجھی میں اس نے غصے میں آکر کیکو کے دروازے کے آگے
پتے اور ریت پھینک دیے۔ اب مومو ساری بات سمجھ کر بہت شرمندہ تھی۔
پیارے
بچو! اگر آپ ابھی اور اسی وقت گہر ی سبز جھیل میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو ضرورایک
سرمئی مچھلی نظر آئے گی جو جلدی جلدی مزیدار کھانا بنا رہی ہے۔ اسے کیکو کچھوے کے
گھر جانا ہے اور اس سے معافی بھی مانگنی ہے۔
بچو!
کیا آپ نے کبھی کسی کے بارے میں غلط سوچا۔ اگر ایسا ہے تو آپ سے اس سے معافی مانگ
لیں۔ غور کریں کہ کہیں آپ خود ہی غلطی پر تو نہیں ۔اچھے بچے ناسمجھی میں آکر غصہ
نہیں کرتے۔