(ماخوذ کہانی)
’’دادی جان کہانی سنائیں ناں!‘‘ عبدو نے ضد کی تو دادی جان نے ہار مان لی۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھیں اور عبدو ان کے پاؤں دبا رہا تھا۔
’’پہلے یہ بتاؤ تم نے ہوم ورک کر لیا؟‘‘
’’جی دادی جان! میں نے سب کام مکمل کر لیا ہے۔‘‘
’’شاباش! عبدو تو بہت اچھا بچہ ہے!‘‘ دادی جان نے خوش ہو کر کہا تو عبدو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’’لو سنو!دور کسی کے ملک کے بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جو شخص جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا گیا تو دیندار قاضی سے پوچھ کر اسے سخت سزا دی جائے گی ۔جب یہ اعلان لوگوں نے سنا تو لوگ ایک دوسرے سے بھاگنے لگے کہی جھوٹ بولتے ہوئے نہ پکڑے جائے۔بادشاہ اور وزیر نے بھیس بدل کر شہر میں گھومنے لگے ایک تاجر کے پاس سے گزر ہوا تو ٹھر کر اس سے بات کرنے لگے بادشاہ نے تاجر سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ جواب دیا کہ بیس سال دوسرا سوال بادشاہ نے کیا کہ تمہارے پاس کتنی دولت ہے ؟تاجرنے کہا 70 ہزار ۔تیسرا سوال کیا کہ تمہارے کتنے لڑکے ہیں ؟تو تاجر نے کہا ایک۔
بادشاہ اور وزیر نے واپس آکر رکارڈ دیکھا تو تاجر کے جوابات کو غلط پایا پھر تاجر کو طلب کیا۔اور اس سے کہاکہ آپ نے اپنی عمر 20سال بتائی ہیں جو کہ غلط ہے اب آپ کو سزا ملے گی ۔تاجر نے کہا میری پہلے بات تو سنے ۔
میری زندگی کے 20 سال ہی اطمینان سے گزرے ہیں اسلئے میں اس کو اپنی عمر سمجھتا ہوں ۔
بادشاہ نے تاجر سے کہا آپ نے دولت کے متعلق بھی جھوٹ بولا ہے کیونکہ آپ کے پاس بے شمار دولت ہے اور آپ کا کہنا ہے کہ میرے پاس صرف 70 ہزار ہیں ۔
تا جرنے کہا 70 ہزار روپے میں نے مسجد کی تعمیر میں خرچ کئے ہیں اور یہی آخرت میں میری کام آئیں گے اسلئے میں اس کو اپنی دولت سمجھتا ہوں۔
پھر بادشاہ نے کہا کہ اپنے بچوں کے متعلق بھی غلط بیانی کی ہے سرکاری رجسٹر میں آپ کے بچوں کی تعداد پانچ ہے ۔
تاجر نے کہا: جناب چار بچے نا لائق بداخلاق اور آوارہ ہیں بس ایک ہی اچھے اخلاق اور کردار والا ہے۔
میں اسی کو اپنی اولاد سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سکون کا ذریعہ ہیں اور آخرت کے اعتبار سے انشاء اللہ وہی میرے کام آئے گی۔
بادشاہ تاجر کے جوابات سن کر بہت خوش ہوا اور تاجر سے کہا بے شک وقت اور عمر تو وہی شمار کرنے کے لائق ہے جو اطمینان وسکون سے گزرے اور دولت بھی وہی گنے کے لائق تھے جس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو اور آخرت کے لئے ذخیرہ بنایا ہو اور اولاد بھی وہی کہلانے کے لائق ہے جس کے اعمال اور اخلاق اچھے ہوں ۔‘‘
کہانی ختم کر کے دادی جان نے عبدو کو آواز دی۔
’’چلو تم بھی جا کر سو جاؤ۔ بہت رات ہو گئی ہے۔ ‘‘ لیکن عبدو کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
’’ہائیں! یہ کیا‘‘ دادی جان کے منہ سے نکلا۔ عبدو ان کے قریب ہی لحاف میں گھس کر سو چکا تھا۔