میرے
سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے مینڈک کی جس کا نام مکی تھا۔ وہ بہت
پیارا مینڈک تھا۔ اس کا رنگ سبز رنگ کا تھا اور اس پر چھوٹے چھوٹے سفید دھبے تھے۔
مکی کا گھر آم کے درخت کے پاس ایک تالاب میں تھا۔ تالاب میں بڑے پتھر کے
پیچھے مینی مچھلی کا گھر تھا۔ مینی مچھلی بہت اچھی تھی۔ وہ سب کے کام آتی
تھی۔ مینی اورمکی ہمیشہ اکھٹے ہی کھانا کھاتے تھے۔ کبھی مینی شکار پکڑ لاتی اور
کبھی مکی کھانے کا انتظام کر لیتا۔
میر
ے بچو! ایک بار مکی مینڈک کو بہت مزیدار سا کیچوا مل گیا۔ آج اس کا دل کرنے لگا
کہ وہ مینی مچھلی کو نہ بلائے اور سارا کھانا اکیلے کھا لے۔
’’اگر
مینی مچھلی بھی میرے ساتھ کھائے گی تو میرے حصے میں آدھا کیچوا آئے گا۔ کیوں نہ
میں یہ سارا خود ہی کھا جاؤں۔‘‘ مکی مینڈک نے سوچا اور جلدی جلدی اس نے سارا
کیچوا کھا لیا۔
’’ٹھک
ٹھک ٹھک!‘‘ دروازے پر دستک ہوئی ۔
’’اوہ!
مینی آگئی۔ ‘‘ مکی نے درواز ہ کھولا۔ سامنے مینی مچھلی ہاتھ میں ایک ڈبہ لیے کھڑی
تھی۔
’’آجاؤ
مینی بہن۔ اندر آجاؤ۔ اصل میں ۔۔‘‘ مکی ابھی کچھ کہ رہا تھا کہ مینی بولی۔
’’مکی
بھائی! اس میں کچھ مکھیاں ہیں ۔ یہ پتھر کے اوپر بیٹھی ہوئی تھیں کہ میں نے انہیں
پکڑ کر ڈبے میں بند کر لیا۔ یہ لو! یہ میں تمھارے لیے لائی ہوں کیونکہ تم میرے بہت
اچھے دوست ہو۔‘‘ مینی نے مکی کے ہاتھ میں ڈبہ پکڑایا ۔
مکی
اندر ہی اندر شرمندہ ہونے لگا۔ مینی کتنی اچھی ہے۔ میرے لیے اتنا مزیدار کھانا
لائی ہے۔
’’مینی!
تم یہیں بیٹھو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ مکی نے مینی کو بٹھایا اور خود باہر چلا گیا۔
رات
ہو چلی تھی لیکن مکی کو امید تھی کہ اسے ایک چھوٹا سا کیچوا تو مل جائے گا ۔ اور
یہی ہوا۔ مکی کو کیچوا مل گیا ۔ اس نے جلدی سے اسے پکڑا ،گھر لا کر پلیٹ میں رکھا
اور مینی کو دیا۔
’’یہ
لو مینی ! تمھارا پسندیدہ کھانا۔ ‘‘ مینی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے مکی کا
شکریہ ادا کیا۔ پھر دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔ یہ اور بات ہے کہ اس رات دو بار
کھانا کھانے کی وجہ سے مکی مینڈک کے پیٹ میں تھوڑا سادرد ہو گیا تھا لیکن وہ
بہت خوش تھا۔ اس نے اپنی دوست مینی کو اس کا پسندیدہ کھانا کھلایا تھا۔