سورہ یوسف میں پوشیدہ چند حکمتیں اور کہانی نگاروں کے لیے بہترین رہنمائی


سورۃ یوسف کے کل بارہ رکوع ہیں، یہ بارویں سپارے میں آتی ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی تعداد بھی خود یوسف علیہ السلام کو ملا کر بارہ تھی۔
اس سورت کی کل آیتیں ایک سو گیارہ ہیں۔ اس میں عدد گیارہ کی تاویل یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا اس میں انہوں نے گیارہ ستارے دیکھے جو انہیں سجدہ کر رہے تھے۔
’’
(وہ وقت قابلِ ذکر ہے)جب کہ یوسفؑ نے اپنے والد یعقوبؑ سے کہا۔ ابّا میں نے خواب میں گیارہ ستارے اور سورج اورچاند دیکھے ہیں ان کو اپنے روبرو سجدہ کرتے دیکھا ہے۔‘‘ (4)
جبکہ اس خواب کی تعبیر سورت کی سوویں (100) آیت میں ہے۔
’’
اور اپنے والدین کو تخت (شاہی) پراونچا بٹھایا اور سب کے سب یوسفؑ کے آگے سجدے میں گر گئے اور یوسفؑ نے کہا اے میرے باپ یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جو پہلے زمانہ میں دیکھا تھا جس کو میرے رب نے سچا کر دیا۔‘‘ (100)

اس سورت میں یوسف علیہ السلام کا ذکر پچیس مرتبہ آیا ہے۔ سورت کی پچیسویں آیت میں یوسف علیہ السلام کو امراۃ مصر کی زبانی سزا دلوانے کی بات کی جارہی ہے۔
’’
بولی کہ جو شخص تیری بی بی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اس کی سزا بجز اس کے اور کیا (ہو سکتی) ہے کہ وہ جیل خانہ بھیجا جائے یا اور کوئی دردناک سزا ہو۔ (25)
پھر پچیس آیات آگے جائیں تو یوسف علیہ السلام انتہائی مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔
’’
تو اپنی سرکار کے پاس لوٹ جا پھر اس سے دریافت کر کہ (کچھ تم کو خبر ہے) ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نےاپنے ہاتھ کاٹ لیے تھےمیرا رب ان عورتوں کے فرقہ کے فریب کو خوب جانتا ہے۔ (50(
اس سے پچیس آیات آگے جائیں تو ایک بار پھر سزا کا ذکر ہے جو یوسف علیہ السلام کے بھائی کر رہے ہیں۔
’’
انہوں نے جواب دیا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کے اسباب میں ملے پس وہی شخص اپنی سزا (حاصل کرے اور) ہم لوگ ظالموں (یعنی چوروں) کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (75(
اورپھراس سے پچیس آیات آگے جائیں تویوسف علیہ السلام ایک بار پھر پوری مضبوطی کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
’’)ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا (حقیقی) بھائی ہے ہم پر الله تعالیٰ نے بڑا احسان کیا واقعی جو شخص گناہوں سے بچتا ہے اور صبر کرتا ہے تو الله تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (90(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کہانی لکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے سورۃ یوسف سمجھنا ہو گی۔ اس کے شروع میں اللہ پاک نے فرمایا ہے۔
’’
ہم نے جو یہ قرآن آپ کے پاس بھیجا ہے (اس کے بھیجنے) کے ذریعے سے ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اور اس (ہمارے بیان کرنے) کے قبل آپ (اس سے) محض بے خبر تھے۔ ‘‘ (سورۃ یوسف۔۳)
قصہ بیان کرنے والا خود رب ذوالجلال والاکرام ہے ۔ اگر ایک ماہر ترین مصور یہ کہے کہ یہ والی پینٹنگ میری سب سے خوبصورت پینٹنگ ہے تو وہ واقعی ایک شاہکار ہو گی۔ لوگ اس کی طرف لپکیں گے کیونکہ اس پینٹنگ کو خود بنانے والے کی طر ف سے خوبصورتی کی سند مل گئی ہے۔
اسی طرح سورہ یوسف کو خود اللہ تعالیٰ نےسب سے خوبصورت قصہ قرار دیا اور آیت میں ’’نحن‘‘ کا اضافہ تاکیداً فرمایا کہ ہم بذاتِ خود تم سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس قصے کو خود قصہ سنانے والے عظیم الشان رب نے بہترین قرار دیا ہے چنانچہ یہ اپنے ا الفاظ، اپنی آیات، اپنے انداز، اپنے موضوع ، اپنی تاویلات ، اپنے واقعات، اپنے اسباق غرض ہر لحاظ سے بہترین قصہ ہے ۔
کہانی لکھنے کے لیے اس سورت سے مندرجہ ذیل اسلوب مل سکتے ہیں:
۱۔ صرف دو تمہیدی جملوں کے بعد اللہ پاک نے قصہ شروع کر دیا ہے۔
۲۔ آغاز ہی میں ایک ایسے عجیب و غریب خواب کا ذکر کر دیا کہ پڑھنے والا تجسس کا شکار ہو جائے۔
۳۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ آپ کے بھائی آپ سے جلتے تھےبلکہ بھائیوں کی آپس میں مشاورت اور ڈائیلاگز کے ذریعے خود بخود یہ بات معلوم ہو گئی۔
۴۔سورۃ یوسف ’’احسن القصص‘‘ یعنی سب سے خوبصورت قصہ ہے۔ سورۃ یوسف قرآن پاک کا حسن ہے۔ پھر اس سورت کا حسن اس کی آیت نمبر نوےّ میں ہے۔
واقعی جو شخص گناہوں سے بچتا ہے اور صبر کرتا ہے تو الله تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (۹۰)
یہ آیت قصے کےانتہائی ڈرامائی اور اثر انگیز موڑ پر سامنے آتی ہے جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ کو پہچان لیا اوریقین ، بے یقینی اور شرمندگی کے ملے جلے احساس میں ڈوب کر چلّا اٹھے۔ ’’کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہو؟‘‘ (90(
اس سے کہانی نگاروں کی یہ سبق بھی ملا کہ جب کہانی اپنے انجام کی طرف بڑھے تو اس موڑ پر ایک سبق آموز جملہ قاری کے دل میں سیدھا اتر جاتا ہے اور اس جملے کے لیےشرط یہ ہے کہ وہ جامع اور سادہ الفاظ پر مشتمل ہو۔
۵۔ سورت کی ایک سو گیارویں آیت ہے :
’’
ان (انبیاء وامم سابقین) کے قصہ میں سمجھ دار لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے یہ قرآن (جس میں یہ قصے ہیں) کوئی تراشی ہوئی بات تو ہے نہیں (کہ اس سے عبرت نہ ہوتی) بلکہ اس سے پہلے جو (آسمانی) کتابیں ہو چکی ہیں یہ ان کی تصدیق کرنے والا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ یہ قصہ بالکل سچ ہے اور اس میں عقلمند لوگوں کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ یعنی اگر ہم معاشرے کے سچے واقعات کو لکھیں یا انہی کو بطور مرکزی خیال لے کر کہانی لکھیں تو یہ زیادہ سبق آموز اور زیادہ مؤثر تحریر ہو گی اور اہل بصیرت یقیناً ان واقعات اور کہانیوں میں سبق اور ہدایت پائیں گے۔