سٹرابری کہاں سے آئی


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے خرگوش کی جس کا نام بنٹو تھا۔ بنٹو کا گھر جنگل کے سب سے گھنے درخت کے نیچے ہوا کرتا تھا۔ کچھ دنوں سے بنٹو کو چھپ چھپ کر کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ جب بھی وہ اپنی پسندیدہ چیز دیکھتا اس کا دل کرتا کہ وہ اسے فوراً کھا جائے۔
ایک دن بنٹو گاجریں لینے اپنے بھائی کے ساتھ کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر شہد کی بوتل پر پڑی جو ایک درخت کے نیچے پڑی تھی۔ساتھ ہی ایک تھیلا بھی پڑا ہوا تھا۔ لگتا تھا کوئی تیزی سے گزرا ہے اور اس کا کچھ سامان گر گیا ہے۔ بنٹو نے ادھر ادھر دیکھا۔ بھائی جان کھیتوں میں جا چکے تھے۔پھر اس نے وہیں بیٹھ کر شہد کی بوتل کھولی اور جلدی جلدی کھانے لگا۔
آہا! کیا مزیدار شہد ہے۔ بالکل تازہ اور میٹھا میٹھا!“


بنٹو نے شہد کھا کر گھاس پر ہاتھ مارا تاکہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔ ابھی وہ بھائی جان کے پاس جانے کا سوچ رہا تھا کہ بھالو میاں کچھ ڈھونڈتے ہوئے وہاں چلے آئے۔
ارے یہ رہی میری بوتل۔ میں کب سے ڈھونڈ رہا تھا۔“  انہوں نے خوشی سے کہا اور بوتل اٹھا لی۔ یہ دیکھ کر وہ حیران ہو گئے کہ اس میں سے کافی سارا شہد غائب تھا۔ پھر ان کی نظر بنٹو پر پڑی جو وہاں سے بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا۔
اچھا! بنٹو میاں! آپ نے میرا شہد کھایا ہے کیا؟
آں۔۔ نہیں انکل! بالکل نہیں!“ یہ کہتے ہوئے بنٹو نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ لیے کیونکہ اس کی انگلیوں  شہد کی وجہ سے چپکنے لگی تھیں۔
ہمم!“ بھالو میاں نے غور سے بنٹو کی چھوٹی چھوٹی  سفید مونچھوں کو دیکھا جہاں شہد کا ایک قطرہ لگا ہوا تھا۔بنٹو نے ہاتھ سے اس مکھی کو اڑانے کی کوشش کی جو بار بار اس کی مونچھوں پر بیٹھ رہی تھی۔
بھالو میاں نے انہیں غصے سے گھورا۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ بنٹو جھوٹ بول رہا ہے۔انہوں نے کچھ بھی کہے بغیر بوتل اور تھیلا اٹھاکر وہاں سے چل دیے۔
اف! اب میری شامت آئی۔بھالو انکل بھائی جان کو  میری شکایت ضرور لگائیں گے۔“ بنٹو نے پریشان ہو کر سوچا اور گھر کی طرف چل دیا۔
بہت ساری گاجریں صحن میں پڑی ہوئی تھیں۔
بھائی جان آچکے تھے اور پتہ نہیں کہاں تھے۔ بنٹو نے آواز لگائی۔
بھائی جان آپ کہاں ہیں؟ میں تو آگیا ہوں۔“  بھائی جان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں بنٹو کی نظر گاجروں کے ساتھ پڑے ہوئے دو کیلوں  پر پڑی۔
آہا! آج بھائی جان میرے لیے کیلے بھی لائے ہیں۔“ بنٹو نے خوشی سے نعرہ مارا اور جلدی جلدی دونوں کیلے چھیل کر کھالیے۔اب اس کا پیٹ بھر چکا تھا۔اس نے گاجریں سمیٹ کر الماری میں رکھ دیں۔ پھر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چلا گیا۔
بنٹو!۔۔ بنٹو!!“ یہ بھائی جان کی آواز تھی۔لگتا تھا وہ غصے میں ہیں۔
بنٹو نے ہاتھ میں پکڑا ہوا گیند واپس پھینکا دوستوں کو جلدی سے خداحافظ کہا اور چھلانگیں لگاتا ہوا گھر کی طرف چلا آیا۔
جی۔۔ جی بھائی جان!“ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
بنٹو! وہ دو کیلے کہاں رکھے ہیں جو میں آج گاجروں کے ساتھ لایا تھا۔
آ۔۔ وہ۔۔ میں نے۔۔“ بنٹو سے کچھ نہ کہا گیا کیونکہ بھائی جان کو غصہ آچکا تھا۔
بنٹو! میں نے وہ کیلے بندر میاں کو دینے تھے اور ان کے بدلے ان کی دکان سے گاجروں کو باندھنے کے لیے رسی خریدنی تھی۔ تم سے کتنی بار کہا ہے کہ بغیر پوچھے کوئی چیز نہ کھایا کرو۔
بھائی! میں سمجھا کہ آپ میرے لیے  لائے ہیں۔
 لیکن بھائی جان  نے اس کی کوئی بات نہ سنی اور ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
بنٹو خاموشی سے باہر آکر گھاس پر بیٹھ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ سب اس سے ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کی چیز بغیر پوچھے کھالیتا ہے۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بھائی جان بھی ناراض ہیں۔ میں ان سے معافی مانگ لیتا ہوں۔
یہ سوچ کر وہ اٹھا ہی تھا کہ سامنے سے بھالو انکل آتے ہوئے نظر آئے۔
اوہ! بھالو انکل۔۔ آپ بھائی جان سے میری شکایت لگانے آئے ہیں؟“ بنٹو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو بھالو انکل ہنسنے لگے۔
نہیں! مجھے تو صبح والی بات یاد ہی نہیں۔میں بندر میاں کی دکان پر کام سے جارہا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ آگے چل دیے۔یہ سن کر بنٹو نے لمبا سا سانس لیا اور گھر کے اندر آگیا۔
ٹھک ٹھک ٹھک!“ اس نے آہستہ سے بھائی جان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
آجاؤ۔“ بھائی جا ن کی آواز آئی۔
بھائی جان! مجھے معاف کر دیں۔ آئندہ میں کوئی بھی چیز بغیر پوچھے نہیں کھاؤں گا۔“ بنٹو نے سر جھکا کر کہا  تو بھائی جان کو اس پر بہت پیار آیا۔
اچھاچلو کوئی بات نہیں۔ اب ایسا نہ کرنا۔جاؤ الماری میں سے سٹرابری کی پلیٹ نکال لاؤ۔
آہا سٹرابری! یہ آپ کب لائے؟“  بنٹو نے خوش ہو کر پوچھا۔
جب تم بھالو انکل کی بوتل سے شہد کھارہے تھے۔ آیندہ ایسا نہ کرنا بنٹو۔ بری بات ہوتی ہے۔
 بھائی جان نے اسے ایک بار پھر سمجھایا اور کچن کی طرف چل دیے۔
بچو!بنٹو اس رات بہت دیر تک کچھ سوچتا رہا لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔ جس پودے کے پیچھے شہد کی بوتل پڑی تھی وہ پودا سٹرابری کا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! کسی کی کوئی بھی چیز لینے سے پہلے آپ اس سے پوچھ لیں تاکہ بعد میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ چاہے  بسکٹ ہو یا چاکلیٹ، جوس نظر آئے یا کوئی پھل، پہلے اپنے بڑوں سے پوچھ لیں اور پھر کھائیں۔ ایسے کرنے سے اللہ پاک آپ سے خوش ہوں گے اور آپ بہت ہی اچھے بچے بن جائیں گے۔