زمین کے رہنے والوں کا جینا دوبھر کر کے۔۔۔ چاند پر جانے کی بات کرتے ہو

کل سے پڑھ رہی ہوں کہ انڈیا کا چندریان مشن ناکام ہونے پر بجائے خوش ہونے کے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے خود اس فیلڈ میں کیا کیا۔ تواتر کے ساتھ پوسٹس سامنے آرہی ہیں کہ ہمیں مذاق اڑانے اور خوش ہونے کی بجائے اس موقع کو لمحہ فکریہ بنانا چاہیے کہ ہم خود تو سائنس میں کوئی خاص ترقی نہیں کر پائے الٹا پڑوس کے چاند مشن کی ناکامی پر خوش ہو رہے ہیں۔
دیکھیں میں مانتی ہوں یہ عام مشن نہں تھا۔ بیسیوں لوگوں کی دن رات کی محنت اس میں شامل تھی۔ اور جب یہ ناکام ہوا تو سائنسدانوں کے دل دھڑکنا بھول گئے اور ان کی اداسی اور پشیمانی بجا تھی۔ لیکن میں کیا کروں۔ میرا دل بھی پچھلے 35 دن سے رک رک کر دھڑک رہا ہے۔ مجھے بھی کشمیریوں پر لگے سخت ترین کرفیو ہر شدید بے چینی پریشانی اور تحفظات ہیں۔ میرے لیے میرا کشمیر سب سے پہلے ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ انڈیا کوئی مختلف انڈیا نہیں ہے یہ وہی شدت پسند ہندو ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے دو ہفتوں سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ کشمیری خواتین کشمیر میں تو غیر محفوظ ہیں ہی دہلی اور لکھنو میں انہیں شدت پسند ہندو عزت تاتار کرنے کی دھمکیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ حامد میر کا کالم پڑھ لیجیے اس پر۔
فطری سی بات ہے بدترین دشمن کو نقصان پہنچے تو انسان خوش ہوتا ہے۔ ایسا دشمن جس نے کئی عشروں سے ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس کی ناکامی پر میں افسردہ کیوں ہوں؟


میری بات سنیں کتنے کشمیری گھروں میں کئی دن سے فاقے چل رہے ہیں؟ کتنے شیر خوار بچے دودھ کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں۔ پورے 35 پینتیس دن ہو چلے ہیں کرفیو کو اور آپ کہتے ہیں میں چندریان مشن کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کروں ہمدردی بھرے الفاظ کہوں اور بھارتی سائنسدان کو تسلی دینے والے مودی جی کو تعریفی نظر سے دیکھوں۔ بھئی یہ نہ ہو گا ہم سے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔
کشمیر میں کوئی جانور نہیں رہتے یا یہ امیزون کا کوئی پوشیدہ جنگل نہیں جہاں کے رہنے والوں کی خبر نہ لے سکوں۔ لیکن عملا اسے ایک ایسا ہی جنگل بنا دیا گیا ہے جہاں نہ انٹرنیٹ ہے نہ ٹیلی فون۔ نہ میڈیا کے نمائندے وہاں جا سکتے ہیں نہ امدادی کارکن۔ یہ جیتے جاگتے انسانوں کی بستی ہے جنہیں جینے کے بنیادی حق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔ اور یہ کون کر رہا ہے۔ چاند پر مشن پر بھیجنے والی مودی سرکار۔
کیا اس ظلم عظیم کے بعد بھی انڈیا یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے چندریان مشن کو سراہا جائے گا؟ زمین پر رہنے والوں کا جینا دوبھر کر کے چاند پر قدم رکھنا کہاں کا انصاف کہاں کی ترقی کہاں کی معراج ہے۔ انسانیت کی معراج انسانیت کی خدمت اور مخلوق خدا سے محبت ہے۔ چاند و مریخ پر کالونیاں بنانا اور آکسیجن و پانی کی دریافتیں کرنا یہ سب بعد میں آتا ہے اور مقصود اول تو خود انسانیت کی بھلائی ہے۔
میرا یقین کریں انسان سب سے اہم ہوتا ہے ۔ آپ ہزاروں انسانوں کا جینا حرام کر دیں انہیں اناج پانی اور ضروریات زندگی کے لیے ترسا کر رکھ دیں پھر نو سو کروڑ روپے خرچ کر کے چاند تو کیا مریخ پر بھی چلے جائیں دنیا آپ کی ناکامی کیا کامیابی پر بھی آپ سے خوش نہیں ہو گی بلکہ آپ کا مذاق بنے گا اور آپ کو استہزائیہ نظروں سے دیکھا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ مضر کے خلاف نماز میں تواتر سے قحط سالی کی سخت بدعائیں فرمائیں کہ انہوں نے چند مسلمانوں کو ایذاء پہنچائی تھی۔
اسی طرح قریش مکہ کے سرداروں نے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حد سے زیادہ تکالیف پہنچائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ایک سردارکا نام لے کر بددعا فرمائی۔
"اے اللہ! قریش کو ہلاک فرما، اے اللہ! قریش کو ہلاک فرما (آپ نے جملہ تین دفعہ دہرایا)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لینا شروع کئے کہ اے اللہ! عمروبن ہشام کو، عتبہ بن ربیعہ کو، اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو اور امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو ہلاک فرما۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو بدر کے دن زمین میں گرا ہوا دیکھا اس کے بعد وہ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کنویں والوں پر لعنت کی گئی ہے“۔ (صحیح البخاری،ج۲ص۱۴۳ رقم الحدیث: ۴۹۰)
یہاں لوگ کہتے ہیں وہ آپ نے مودی جی کو دیکھا ہے کیسے سائنسدان کو گلے لگایا۔ اسے کہتے ہیں نظریاتی اور ہمدرد لیڈر۔ یہ ہوتی ہے سائنس کی ترقی۔ لوگو! ہمیں ایسی سائنسی ترقی نہیں چاہیے جس میں مظلوم کشمیریوں کا لہو اور کشمیری خواتین کی تار تار ہوتی عزتیں شامل ہوں۔
ارشاد ہوا کہ اب (یہ مقدس) زمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ خانہ بدوشوں کی طرح (صحراء میں) ادھر ادھر سر گرداں رہیں گے۔ پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا“۔ (القرآن)
اللہ تو فرمارہے ہیں کہ نافرمانوں پر آئے ہوئے عذاب اور مشکل پر غم نہ کروں اور میری ٹائم لائن بیسیوں لوگوں کی انڈین قوم سے ہمدردی اور بھائی چارے والی پوسٹس سے بھری ہوئی ہے۔
بھئی جو بھارت میرے کشمیری بھائیوں بہنوں کے لیے سخت تکلیف اور پریشانی کا بلا واسطہ ذمہ دار ہے میں اس کے چندیان مشن کی ناکامی پر ہمدردی کا اظہار نہیں کر سکتی۔ اور میں اس سائنسدان کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ چاند مریخ سب سیاروں کے لیے مشن تیار کر لیں لیکن عمل اس وقت کیجیے گا جب کشمیر آزاد ہو جائے کیونکہ فی الوقت ثابت ہوا کہ آپ کے اس مکمل و بہترین مشن کی سراسر ناکامی کے پیچھے کسی فنی خرابی کے ساتھ ساتھ مظلوم کشمیریوں کی بدعاوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
دوسری جانب، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اپنے نوجوان بچوں بچیوں کو ہر ایری غیری بات پر احساس کمتری میں کیوں مبتلا کر دیتے ہیں کہ بھئی دیکھو تو انڈیا ہمارا پڑوسی ہمارے ساتھ آزاد ہوا اور آج چاند سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر اپنا راکٹ چھوڑ آیا اور ایک تم ہو سائنس کی ذرا جو سمجھ ہو تمھیں۔ خدایا! کیا آپ انٹرنیٹ نہیں دیکھتے کیا آپ خبریں نہیں سنتے۔ آپ کو نہیں معلوم پاکستان کے نوجوان پوری دنیا میں کس کس طرح سائنسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے فوربز نے 9پاکستانی نوجوانوں سمیت 30 ایشیائی بااثر اور کامیاب نوجوانوں کی فہرست جاری کر دی،فہرست 30 برس سے کم عمر کے مردوں اور خواتین پر مشتمل ہے جو اپنے ملک میں چیلنجنگ ماحول ہونے کے باوجود اپنی محنت اور کوششوں سے مثبت تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہے۔
ان پاکستانی نوجوانوں میں سعدیہ بشیر پاکستان میں نوجوانوں کو ویڈیو گیمز کی ڈیزائنگ کی تربیت دینا چاہتی ہیں۔ انھوں نے کینسر کے مریضوں کی جانب سے مرض کی شناخت، پانی میں آلودگی کا سبب بننے والی چیزوں سے متعلق آگہی اور امن کے پھیلاو اور اسے متاثر کرنے والے عناصر کی شناخت پر گیمز بنائی گئیں۔ ان میں دو بھائی محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ بھی شامل ہیں دونوں کی عمر 24 برس ہے۔ انہوں نے نیوروسٹک نامی ادارہ بنایا اور اس ادارے کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے کم خرچ اور اعلیٰ معیار کے طبی آلات اور مصنوعی اعضا فراہم کرنا ہے۔نیوروسٹک طبی خدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضا کی فراہمی کی خدمت بھی انجام دیتا ہے جہاں لوگوں کی بحالی کی سہولیات تک رسائی کم ہے یا بالکل نہیں۔ حمزہ فرخ کے شمس پانی نام کے اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے ایسے غریب علاقوں میں صاف پانی کی کمی کو پورا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والے دو کنوئیں بنائے گئے جو ایک گاو¿ں کے 1500 افراد کو صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔ہر ایک پمپ روزانہ 5000 لوگوں کے لیے صاف پانی نکالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ محمد شہیر نیازی کی برقی چھتوں یعنی 'الیکٹرک ہنی کوم' پر کی گئی تحقیق پر مبنی مضمون رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل نے شائع کیا گیا۔ یہ جریدہ دنیا بھر سے سائنس، ریاضی اور انجینیئرنگ کے میدان میں ہونے والی تحقیقات شائع کرتا ہے۔شہیر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے لیے ایک اور نوبیل لانا چاہوں گا‘۔ پاکستان میں سائنسی علوم کی تحقیق کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ’ میں فزکس سمیت دیگر علوم میں ایجادات کرنا چاہتا ہوں اور دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں سے بھی سائنسدان نکل کر آ سکتے ہیں۔‘شہیر کی تحقیق جس نئے پہلو کو سامنے لائی وہ تھا تیل کی سطح پر حرارت کا فرق۔ شہیر نے اس عمل کی تصویر کشی بھی کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کسی بھی طرح کسی سے کم نہیں۔ مجھے اپنی نئی نسل سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ وہ ناسمجھ لوگوں کی باتوں میں آکر مایوس ہوں یا اپنا حوصلہ کم کریں۔
میں نے چندریان مشن کی سات منٹ پر مشتمل ویڈیو دیکھی تو اس میں کمنٹری کرنے والا ایک ایک منٹ اور اک اک سیکنڈ گن رہا تھا۔ اے کاش یہ کشمیر پر لگے ہوئے کرفیو کا ایک ایک دن بھی گن سکتے۔ بس مودی سرکار کو میرا پیغام ہو کہ
"
لگ بھگ دو ایک مہینہ اور پانچ دن بیت چکے ہیں۔ پوری مسلم امت کے چہرے پر تناو کی پرابھو ہے۔ کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر دیں اور انہیں ان کا حق دیں۔ اس سے پہلے مظلومین خود اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔"