میں نے ایم بی اے کیوں کیا

جب بھی میں کالج اور یونیورسٹی جاتی ہوئی پیاری پیاری بچیوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان پر بہت رشک آتا ہے۔ تروتازہ چہرے امنگوں امیدوں سے بھری آنکھیں اور پرجوش قدم۔
لیکن جب میں یہ سوچتی ہوں کہ ان ذہین لڑکیوں کو یونیورسٹی کے چار پانچ سال ختم ہوتے ہی گھر بیٹھنا پڑے گا۔ اپنی ساری کتابیں اٹھا کر ایک پرانی سی الماری میں بے کار چیزوں کی طرح بند کرنی پڑیں گی۔ اپنے وہ سارے نوٹس جو بہت محنت اور لگن کے ساتھ بنائے تھے جن پر کہیں کہیں سمائیلی بنی ہوئی ہیں کہیں پھول بوٹے کہیں خود کے دستخط اور کہیں کسی سہیلی کے ساتھ گفتگو لکھی گئی ہے یہ سب کاغذ کچھ عرصے تک تو گھر والے برداشت کریں گے پھر ان کی جگہ ردی والے کی ریڑھی ہو گی۔ تو پھر ان امنگوں اور منصوبوں کا کیا حال ہو گا جو انہوں نے کیمپس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بنائے تھے۔ کہ جیسے ہی فائنلز کلئیر ہوئے یہاں انٹرنشپ کریں گے ویاں اپلائی کریں گے۔ ہر ممکن جگہ سی وی جمع کروانی ہے۔ اپنی صلاحیتیں خوب خوب استعمال کرنی ہیں اور اپنے علم کو زنگ نہیں لگنے دینا۔
لیکن کون سی انٹرنشپ اور کیسی صلاحیتیں۔۔ آخری سمسٹر تک امی نے رشتہ والی خالہ سے اچھی گپ شپ لگا لی ہے اور اب سب خالاون پھوپھیوں باجیوں اور کزنوں کو انتظار ہے ہاتھوں پر مہندی لگنے کا۔


میں نے کئی دن پہلے ایک وڈیو دیکھی تھی جس میں ایک کارٹون دائرے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ کھیلتا کودتا ہے لیکن جیسے ہی وہ کچھ بڑا ہونے لگتا ہے اسے اس کے ماں باپ ایک سانچے میں سے گزار کر مستطیل کر دیتے ہیں۔ پھر وہ بچہ اداس اداس بنچ پر جا بیٹھ جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کی طرح کے سب بچے سانچے میں سے گزر ریے ہیں یا گزر چکے ہیں اور سڑکیں شہر حتی کہ پوری دنیا صرف اور صرف مستطیل لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔
اسلامک یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، فاطمہ جناح یونیورسٹی، راولپنڈی میڈیکل کالج، آرمی میڈیکل کالج، الشفاء میڈیکل کالج اور دوسری ہزارہا یونیورسٹیوں اور کالجز میں لاکھوں ذہین فطین اور باصلاحیت لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن آپ کو پتہ ہے ان میں سے اکثریت کا کیا مقدر ہے۔ سانچہ! جی۔ رشتے کا سانچہ۔ ان میں سے ہر ایک کا جلد یا بدیر رشتہ طے کر دیا جائے گا۔ پھر ان کی شادی ہو جائے گی اور یہ ان کروڑوں عورتوں میں جا کر شامل ہو جائیں گی جن کی زندگی کا مقصد بغیر اوون کے پزا بیک کرنا اور کھاڈی کی سیل سے چار سوٹ لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
کہاں گئی وہ خوشبوؤں میں بسی روشن چہرے اور رنگین سمارٹ سا ہینڈ بیگ لیے سلیقے سے سکارف سیٹ کیے پرجوش لڑکی۔ یہ الجھے بالوں اور پر شکن کپڑوں والی کچن میں کھڑی پسینے مین تتر بتر ، بے ہنگم وجود لیے کوفتوں کا مصالحہ بناتی لڑکی وہ تو نہیں ہے! یہ تو وہی مستطیل ہے!
میرا سوال ہے کہ پھر ہم لڑکیوں کو بی ایس کیمسٹری ایل ایل بی ڈبل میتھس سٹیٹس ام فل اردو ادب یہ سب کیوں پڑھا رہے ہیں۔ جب والدین نے پہلے سے یہ سوچ کر رکھا ہوا ہے کہ جیسے ہی ہماری بیٹی ڈگری لے کر گھر آئے گی اسی دن سے ہم اس کی شادی کا بندوبست کرنا شروع کر دیں گے۔ جاب کرنے دینا تو دور کی بات ہے۔ جاب کا خیال بھی لڑکی زبان پر لے آئے تو باپ بھائی کو سو طرح کے تحفظات لاحق ہو جاتے ہیں اور تان امی پر توٹتی ہے کہ اور کرواو پڑھائیاں اور بھیجو یونیورسٹی دیکھا ناں جاب کرنے کا کہہ رہی ہے اب۔ گھر میں اس کو چین نہیں آرہا اب۔امی اپنی جگہ شرمندہ کہ بیٹی کو یہ کیا سوجھی۔
جب سسرال اور شوہروں کی پہلی ڈیمانڈ گھر میں رہنا ساس سسر کا پرہیزی کھانا پکانا اور ہر سال بچے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پھر ہم نے اس لڑکی کو میڈیکل کیوں کروایا جب ہم نے اسے ہاوس جاب نہیں کرنے دینی تھی۔ ہم نے اسے ایل ایل بی کیوں پڑھوایا جب ہم نے اسے وکالت کا لائسنس ہی لے کر نہیں دینا تھا۔
پرانے زمانے میں لڑکیوں کی میٹرک تک تعلیم کافی سمجھی جاتی تھی۔ ہاں اس کو سینا پرونا آتا ہو کھانا پکانے میں ماہر ہو اور گھر میں جم کر رہے آیا گیا دیکھے اور باورچی خانہ سنبھال لے یہ ہنر بے حد ضروری تھا۔ اب ہم اس زمانے میں آتے ہیں۔ ہم اب چونکہ نئے زمانے کے والدین ہیں تو ہم اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹری اور وکالت کی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ انہیں ایم بی اے اور ایم ایس سی کروا رہے ہیں۔ لیکن آخر میں آکر ہماری اپنی بہو بیٹیوں سے کیا توقع رہ جاتی ہے۔ وہی ہنر جس کی پرانے زمانے کی بہو سے امید رکھی جاتی تھی۔ یعنی گھر اور بچے سنبھالنا اور سسرال والوں کی جی جان سےخدمت کرنا۔ مطلب اس کے پھر وہ پانچ چھ سال کہاں گئے؟ وہ اپنے کالج اپنی یونیورسٹی کی ٹاپ سٹوڈنٹ وہ ہائیسٹ جی پی اے والی وہ اپنی کلاس کی سی آر وہ اساتذہ کی منظور نظر شاگرد وہ سپورٹس کی جنون کی حد تک دیوانی وہ خوبصورت پینٹنگز بنانے والی کہاں گئی؟ وہ اپنی کتابوں اپنے نوٹس اپنی شیلڈز اور اپنے کینوس برش سمیت بھاڑ میں جھونک دی گئی۔ اور پھر ہم نے اس کے بدلے برآمد کیا کی۔ گول روٹی بنانے والی سال کے تین سو پینسٹھ دن صبح سے شام کچن میں کھڑی رہنے والی تقریبات پر میک تھوپ کر چمک دمک کپڑوں پر فخر کرنے والی ایک تمیز دار بہو۔ جسے نہ سیاست کی کوئی سمجھ ہے نہ کرکٹ کی۔ جس کے نزدیک سوشل میڈیا فیس بک پر اپنے بیٹے کی تصویر اپ لوڈ کرنے کا نام ہے اور واٹس ایپ سہیلیوں اور بہنوں سے گپیں لگانے کا ذریعہ۔
میں کہنا چاہتی ہوں کہ اسلام نے یہ کہا تھا عورتیں اپنے گھروں میں رہیں تو اس کا سیدھا سادا مطلب تو یہی تھا کہ عورتیں اپنے گھروں میں رہیں۔ لیکن بخدا اس کا یہ مطلب یہ نہیں تھا کہ عورتیں اپنی صلاحیتوں اور اپنے ہنر وکمالات کو بھی ٹرنک اور بکسوں میں بند کر کے رکھ دیں۔
گھر میں رہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں پینٹنگ نہ کروں میں ڈاکٹر ہو کر بھی مریض کو چیک نہ کروں میں بی ایس فزکس کو جس ہر میرے والدین نے لاکھوں روپے فیس خرچ کی ہے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے اپنے جیب خرچ کا ذریعہ نہ بناوں۔ گھر میں رہنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ میں اپنے وہ سب نوٹس جلا دوں جن پر میں نے کئی کئی بار میتھ کے مشکل ترین سوال حل کیے ہیں۔ میں ان نوٹس کا استعمال کر کے گائیڈ لکھ سکتی ہوں یو ٹیوب چینل پر باحجاب ہو کر پڑھا سکتی ہوں سکائپ کی کلاس لے سکتی ہوں میں چھوٹے بچوں کو دوا لکھ کر دے سکتی ہوں کیونکہ میں ڈاکٹر ہوں۔ میں پریشان حال کو اچھا مشورہ دے سکتی ہوں کیونکہ میں وکیل ہوں۔ میں ڈیزائنر سوٹ سی سکتی ہوں۔ ٹائپنگ پروف ریڈنگ اور گرافکس کر سکتی ہوں۔ لڑکیوں کو بیکنگ کا کورس کروا سکتی ہوں۔ ہر ہفتے درس دے سکتی ہوں۔ کہانیاں اور آرٹیکل لکھ سکتی ہوں۔۔۔۔ آخر ایک لڑکی کیا کیا نہیں کر سکتی؟ کیا ہمارے معاشرے کے مرد لڑکیوں کو انسان سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان کو یقین کرنا پڑے گا کہ لڑکیوں میں بھی اللہ پاک نے ویسے ہی صلاحیتیں رکھی ہیں جیسے کہ خود ان میں ہیں۔ ہاں لڑکیاں انجینئر ہو سکتی ہیں ڈاکٹر ہو سکتی ہیں وکیل ہو سکتی ہیں پولیس میں جا سکتی ہیں دکاندار بن سکتی ہیں الیکٹریشن اور پلمبر بھی ہو سکتی ہیں گاڑی چلا سکتی ہیں ہوٹل مینجمنٹ کر سکتی ہیں سکول میں پڑھا سکتی ہیں اخبار چلا سکتی ہیں کہانی لکھ سکتی ہیں نرس بن سکتی ہیں۔ اور لڑکیوں کو یہ سب کام کرنے چاہئیں۔
کیوں؟؟ اس لیے کہ آپ کی بیوی کو دوران زچگی خاتون ڈاکٹر چاہیے۔ آپ کی جواں سال بیٹی کو خاتون استاد چاہئیں۔ آپ کی بیمار ماں کو خاتون نرس چاہیے۔ آپ کی بیوی گھر میں اکیلی ہے اور نلکہ ٹوٹ گیا ہے تو اسے خاتون پلمبر چاہیے۔ آپ کی بہن نے گھر کا نقشہ بنوانا ہے اور اسے خاتون انجینئر کی تلاش ہے۔ آپ کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور آپ کی خواتین کو بھوک لگی ہے تو آپ کو ایسا ہوٹل چاہئے جہاں خواتین کھانا بھی آرام سے کھا لیں اور بغیر کسی ججھک کے نماز وغیرہ بھی پڑھ لیں۔ خواتین کا غم ایک خاتون ہی کہانی میں بیان کر سکتی ہے۔ چور لڑکی کو پکڑنے کے لیے خاتون پولیس چاہیے۔ آپ کی بیوی نے اندر گارمنٹس خریدنے ہیں تو خاتون دکاندار کا دکان پر موجود ہونا ضروری ہے۔ خواتی کا جم چلانے کے لی خاتون ٹرینر چاہیے۔خواتین کا پارلر چلانے کے لیے خواتین کا ہونا ضروری ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم اپنے معاشرے میں خواتین کی جگہ بناپاتے اور انہیں نئے زمانے کے نئے تقاضوں میں حجاب اور دوسرے شرعی اصولوں کے ساتھ سیٹ کر دیتے ہم نے انہیں ان کی صلاحیتوں کے ساتھ ٹرنک میں بند کر کے رکھ دیا۔ درحقیقت مغرب نے یہ انتہا کی کہ عورت کو یکسر گھر سے باہر نکال کر رکھ دیا اس کے بچے ڈے کئیر کے حوالے کر کے اس سے مردوں کی طرح یسکاں بیگار لی جانے لگی۔
یہاں ہم دوسری انتہا پر چلے گئے۔ وہ یہ کہ ہم نے اپنی عورتوں کو گھروں میں اتنا بند کر کے رکھ دیا کہ ان کی صلاحیتوں اور ان کے ذاتی کمالات کو زنگ لگ گیا حتی کہ وہ معاشرتی ترقی میں کوئی بھی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم خواتین کو اسی طرح اپنے معاشرے کے لیے موثر اور کار آمد بننے کے مواقع فراہم کرتے جیسے دین اسلام نے صحابیات کو فراہم کیے۔ آپ نے صحابیات کے واقعات پڑھے ہوں گے۔ کسی واقعے میں کوئی صحابیہ جنگ کے دوران زخمیوں کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ کوئی صحابیہ اپنی بہادری اور دلیری میں مشہور نظر آتی ہیں۔ کوئی صحابیہ احادیث یا مسائل کی تدریس میں ماہر نظر آتی ہیں۔ حضرت خولہ بنت الازور رضی اللہ عنہا، حضرت ضرار بن الازور کی بہن تھیں۔ جب حضرت ضرار کو رومی پکڑ کر لے گئے توآپ نے مجاہدین کا سا لباس پہنا، چہرے کو سیاہ نقاب سے ڈھانپا اور اس بے مثال بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنے بھائی کو چھڑا لائیں کہ مجاہدین حیران رہ گئے۔ یہ ان کی خاص صلاحیت تھی جس کا انہوں نے زبردست اور بروقت استعمال کیا۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بزنس وومن تھیں۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی سخاوت مشہور تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے امہات المؤمنین سے فرمایا تھا کہ جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہوئے، وہ تم میں سے سب سے پہلے میرے سے آملے گی، تو امہات المؤمنین اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں، لیکن جب حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد امہات المؤمنین میں سے پہلے حضرت زینب کا انتقال ہوا تو انہیں ادراک ہوا کہ آپ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا۔ ہاتھ کے لمبے ہونے سے مراد سخاوت تھی جو حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کی فطرت و طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی۔ یہ آپ رضی اللہ عنہا کا مبارک وصف تھا، خداداد صلاحیت تھی، آپ کی وفات کے بعد مدینہ کے مساکین میں کہرام برپا ہو گیا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا بےشمار مساکین و غرباء کی کفالت کیا کرتی تھیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فقہ اور مسائل کی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ کبائر صحابہ کرام مسائل میں ان سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فقہ اورحدیث کی باقاعدہ تعلیم دیا کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا شاعرہ و خطیبہ تھیں، مفسرہ قرآن بھی تھیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ایک دن میں چمڑے کی چالیس کھالوں کو رنگ لیا کرتی تھیں اور مدینے کی عورتیں حیران رہ جایا کرتی تھیں۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی فنِ دباغت یعنی کھالیں بنانے کی ماہر تھیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی غرباء پر خرچ کر دیا کرتی تھیں۔ حضرت رُفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا ماہرطب تھیں۔ ایک زبردست ڈاکٹر تھیں۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگ خندق کے زخمیوں کا علاج کیا۔ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا عرب کی مشہور شاعرہ تھیں۔ ایک بار آپ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی لاجواب کر دیا تھا۔ آپ کو مشہور عرب شاعر نابغہ ذبیانی نے کہا تھا۔ ’’واقعی آپ عورتوں میں بڑی شاعرہ ہیں، اگر اس سے پہلے ابو بصیر (اعشیٰ) کے اشعار نہ سن لیتا تو آپ کو اس زمانہ کے تمام شعراء پر فضیلت دیتا اور کہتا کہ آپ جن و انس میں سب سے افضل ترین شاعرہ ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہا کا فصیح و بلیغ اور حکمت بھرا کلا م سن کر پیارے نبی ﷺ فرماتے۔ ’’شاباش! خنساء!‘‘اور آپ نے ایک نیک خاتون حضرت فضہ کا قصہ سن رکھا ہوگا جو ہر سوال کا جواب صرف اور صرف قرآن کی آیت سے دیا کرتی تھیں۔ بات چاہے جیسی بھی ہو، آپ کے منہ سے صرف قرآنی آیت نکلا کر تی تھی۔
پس ثابت ہوا کی اسلام نے کبھی بھی عورت کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے سے نہیں روکا۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم نے عورت کو معاشرے میں space دینی ہے۔ اس کو اہم ہونے احساس دلانا ہے اور اسے بتانا ہے کہ گھر کی صفائی اور کچن سے آگے جہان اور بھی ہیں۔
میں نے بی بی سی کے فیس بک پیج پر ایسی کئی ویڈیوز دیکھیں جن میں پاکستانی ورکنگ ویمن کی کوششوں اور ان کے کاروبار کو سراہا گیا۔ ان کے انٹرویوز کیے گئے اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ بیشتر ورکنگ ویمن کا گلہ یہ تھا کہ اکثر مرد حضرات انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہاں آ کر میں نے سوچا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم اپنے بیٹوں کو نظر جھکانے کی تربیت دیتے ۔ اب زمانہ تو ایڈوانس ہے بچیوں کو لا محالہ کبھی پڑھنے کے لیے کبھی کمانے کے لیے گھر سے تو نکلنا ہی پڑتا ہے تو چونکہ مردوں کی تربیت ہی نہیں ان کے لیے عورت بس گھورنے کی چیز ہے چاہے باپردہ ہو یا بے پردہ تو وہ بس بدنظری میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔ یوں بجائے اس کے ہم اپنے معاشرے کو عورت کے لیے محفوظ اور پر امن بناتے ہم نے انہیں گھروں میں رہو والی آیت سنا کر کر ان ک صلاحیتوں پر قفل لگا دیا اور دوسری طرف جن خواتین کو بحالت مجبوری گھر سے نکلنا پڑا انہیں نہ صرف مردوں کی بری نگاہوں کا سامنا ہے بلکہ بے شرم و بدکردار جیسے القاب بھی سننے پڑتے ہیں۔
کہنا بس یہ ہے کہ عورتوں کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے۔ ان کو انسان سمجھا جائے نہ کہ ایک شوپیس جو پہلے میکے اور پھر سسرال میں جا کر سج جاتا ہے۔ نہ کوئی اس کے خوابوں کی قدر کرتا ہے نہ کسی کو اس کی لائف پلاننگز سے کوئی سروکار ہے۔ والدین کو بس اس کے جوان ہوتے ہی شادی کی فکر لاحق ہے اور شادی کے بعد شوہر کو یہ سوچ تنگ کر رہی ہے کہ کام والی تو نہیں رکھنے پڑےگی آنے والی گھر تو سنبھالے گی ناں۔
اس سب کے کہنے بتانے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ خواتین اپنی اولین ذمہ داریوں سے دور ہو جائیں۔ دیکھیں اصول تو ہی رہیں گے۔ اگر آپ بیٹی ہیں تو ماں باپ کی خدمت آپ پر فرض ہے۔ اگر آپ بیوی ہیں تو شوہر کا کہا ماننا آپ پر فرض ہے اور ماں ہیں تو بچوں کی تربیت کرنا آپ کا فرض ہے۔
یہ کہا سنا تو ان والدین کے لیے ہے جو لڑکیوں کو اعلی تعلیم دلوا کر عضو معطل کی طرح ایک کونے میں رکھ دیتے ہیں۔ اور ان سسرال والوں کے لیے ہے جو ڈاکٹر انجینئر یا ایم بی اے بہو لا کر اس سے پہلی فرصت میں اپنی ڈگری چولہے میں جھونک دینے کی توقع کرتے ہیں۔