پیارے
بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھی منی سی تتلی کی جس کو اپنے خوبصورت پَر بہت
اچھے لگتے تھے۔ اوراس کے پر تھے ہی اتنے پیارے۔ نیلے نیلے دائروں کے اندر
سرخ نکتے اور سبز دھاریوں سے بھرے ہوئے۔ لیکن اس خوبصورتی نے اس کو کچھ
مغرور سا بنا دیا تھا۔ وہ
جہاں بھی اپنی ہمسائی تتلی کو اڑتے دیکھتی اس کا مذاق اڑانے لگ جاتی۔
بچو! سیا ہ تتلی اپنی مرضی سے تو سیاہ پیدا نہیں ہوئی تھی ناں! یہ تو بڑے
اور عظیم رب کی قدرت ہے کہ وہ کسی کو خوبصورت کسی کو کالا کسی کو گورا کسی
کو بدنما اور کسی کو خوشنما پیدا کر تا ہے۔ ہمیں کبھی اپنی اچھی اچھی چیزوں
پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
لیکن یہ بات ابھی ننھی تتلی کو سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ چنانچہ وہ سارے
باغ میں ایک ادا سے اڑتی پھرتی اور جب بھی اسے سیاہ تتلی نظر آتی وہ خوب
ہنستی اور اس کے پروں کا مذاق اڑاتی۔ ایک
صبح جب باغ کے سب پرندے چہچہا رہے تھے ننھی تتلی اٹھی اور انگڑائی لیتی
ہوئی بولی۔ آج تو ضرور ساتھ والے باغ کی سیر کرنے جاؤں گی۔ سنا ہے وہاں
گلابی پھولوں کا رس بہت مزیدار ہوتا ہے۔
’’یہ نیا باغ توجامنی پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ واہ!‘‘ ننھی تتلی نے
خوشی سے کہا اور جلدی سے ایک بڑے سے گلابی پھول کے اوپر بیٹھ گئی۔ تھوڑی
دیر بعد اسے احساس ہوا کہ کوئی سایہ سا اس کے اوپر منڈلا رہا ہے۔ جب اس
نےسر اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک بھنورا تھا۔ جو اس کو کھانے کے لیے پر تول
رہا تھا۔ ’’اوہ!
‘‘ ننھی تتلی نے ایک چیخ ماری اور جلدی سے نیچے کی طرف جانے لگی لیکن اس
جلدی میں اس کا دایاں پر ایک کانٹے سے الجھ کر رہ گیا۔
وقت بہت کم تھا۔ ننھی تتلی نے بس ایک جھٹکے سے پر کو چھڑانے کی کوشش کی
تو وہ ٹوٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کو اتنا درد تو پہلے کبھی
نہیں ہوا تھا۔ ٹوٹے
ہوئے پر کے ساتھ اڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ پودے کے ساتھ اگی ہوئی
جھاڑیوں میں جا گری۔ وہ تو شکر ہے بھنورا اس کو نہ ڈھونڈ سکا اور واپس چلا
گیا ورنہ ننھی تتلی کی جان تو گئی تھی۔
ننھی تتلی بہت دیر تک وہاں پڑی درد سے کراہتی رہی۔ شام کو سیاہ تتلی
اتفاق سے وہاں سے گزری تو اسے ننھی تتلی جھاڑیوں میں گری نظر آگئی۔ اس نے
اسے جلدی سے اٹھایا اور اپنے گھر لے گئی۔
میرے پیارے بچو! سیاہ تتلی نے ننھی تتلی کی طرف سے دئی گئی نفرت اور
حقارت کے باوجود ، بڑے ہی دل سے اس کی خدمت کی۔ روش صبح وہ اس کو سہارا دے
کر دھوپ میں بٹھاتی اور اپنی خوراک کے ساتھ ساتھ اس کا کھانا بھی لاتی۔
حتیٰ کہ ننھی تتلی کا نیا پر نکل آیا اور وہ اڑنے کے قابل ہو گئی۔
بس پھر کیا تھا! اتنے دنوں کی پرخلوص خدمت کے بعد ننھی تتلی کا دل تو
ویسے ہی شرمندہ تھا اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب جاتے وقت سیاہ
تتلی نے اسے جامنی پھولوں کے رس سے بھری ہوئی ایک بوتل یہ کہتے ہوئےپکڑا دی
کہ ابھی کچھ وقت اور آرام کر لینا۔ بچو!
سیاہ تتلی کے اس پیار بھرے سلوک پر تو ننھی تتلی کے آنسو ہی نکل آئے۔ اس
نے سیاہ تتلی کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ اور دل میں اللہ میاں سے عہد کر لیا
کہ وہ اب کسی کا مذاق نہیں اڑائے گی۔وہ جان گئی تھی کہ برا وقت تو کبھی بھی آسکتا ہے اور برے کاموں کی سزا ضرور ملتی ہے۔
سوہنے موہنے بچو! ننھی تتلی نے پھر کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑایا ۔ اور
وہ اور سیاہ تتلی اب گہر ی دوستیں ہیں کیونکہ میرے اور آپ کے پیارے اللہ
تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں کہ دیا ہے کہ اگر تم برائی کا بدلہ
اچھائی سے دو گے تو تمھارا دشمن ایک دن تمھارا گہرا دوست بن جائے گا۔ ننھی
اور سیاہ تتلی سارے باغ میں اب ہمیشہ اکھٹے اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اگر
کبھی آپ کا گلابی پھولوں والے باغ میں جانا ہو تودونوں تتلیوں کو میرا
سلام ضرور دیجیے گا !