میرے
گھر سے قریبا ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر قبرستان ہے۔ جب بھی مجھے مارکیٹ جانا
ہوتا ہے میں ایک لمبا چکر کاٹ کر جاتا ہوں اور قبرستان کے سامنے سے ضرور گزرتا
ہوں۔
مجھے وہاں جانا اچھا لگتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہاں میرے کسی عزیز کی قبر ہے۔ بس اس لیے کہ ایک دن میں نے بھی وہاں جانا ہے۔ میرا اصلی گھر یہیں ہو گا۔ یہیں۔۔ ان بہت سارے اونچے نیچے کچھ پکے کچھ کچے گھروں کے درمیان مجھے بھی رہنا ہے۔
بظاہر ان سب قبروں کے مکین خاموش ہیں لیکن یہ صرف مجھے اور آپ کو نظر آتا ہے۔ یہ خاموشی بولنے والی خاموشی ہے۔ یہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اس خاموشی میں بہت ساری آوازیں ہیں جو ہم سن سکتے ہیں اگر ہم غور کریں۔
ان میں سے کچھ آوازیں کہ رہی ہیں۔ آئے ہائے! اے کاش ہم زندگی میں نیک اعمال کر لیتے۔ اف ان آوازوں میں کتنا درد کتنی حسرت کتنی تکلیف ہے۔ کچھ اور آوازیں بھی ہیں جو بہت تازہ بہت پیاری ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں۔ واہ واہ! کاش زمین پر بسنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ زندگی میں صرف ایک بار سبحان اللہ کہنے کا کتنا اجر ہے تو وہ ایک لمحہ بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو کر نہ گزاریں۔
کبھی کبھی میں بہت دیر تک قبروں کو غور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ میرا دل کرتا ہے میں جان سکوں اس مکین کے ساتھ کیا گزری جب ملک الموت اس کو لینے آگئے۔ جب اس کے کانوں میں میوزک والے ہینڈ فری لگے ہوئے تھے تو اس کو ملک الموت اپنے سامنے دیکھ کر کیسا لگا؟ کوئی مکین ایسا بھی تو ہو گا جو تہجد کے سجدے میں ہی ملک الموت کے ساتھ چلا آیا۔ میری شدید خواہش ہے کہ میں اس مکین سے ریحان کے ان پھولوں کا رنگ پوچھ سکوں جو فرشتوں نے اس کے گھر سے لے کر یہاں اس قبرستان تک بچھا دیے تھے۔
کچھ قبریں بہت چھوٹی سی ہیں۔ یہ ننھے بچوں کی ہیں۔ ان قبروں پر گلاب اور موتیے کے پھول اگ چکے ہیں۔ اگر آپ نے زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے دونوں طرف پھول دیکھنے ہوں تو یہاں چلے آئیں۔
یہ سب کے سب مکین موت کے فرشتے ملک الموت کے ساتھ چلے آئے ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے نہیں آئے۔ انہیں لایا گیا ہے۔ مجھے بھی لے جایا جائے گا۔ میں مرنے کی تمنا نہیں کرتا لیکن میری خواہش ہے کہ میں ایک دن جب ملک الموت کو اپنے روبرو دیکھوں تو اس سے پوچھوں۔ کیا تم وہی ہو جو لوگوں کو ایک انجان سی دنیا میں لے جانے کے لیے آتے ہو؟ کیا تم وہی ہو جو کبھی روح نکالتے وقت دنیا جہاں کا درد دیتے ہو یا کبھی یوں نکال لیتے ہو جیسے پتہ ہی نہ لگے۔ میں نے تصور کیا کہ ملک الموت کہہ رہے تھے۔ روح نکلنے کی تکلیف کا انحصار تو خود تم پر ہے۔ اگر تم اللہ کے فرمانبردار بنے رہو اور تمھاری موت ایمان و تقوی پر آجائے تو میں تمھاری روح مکھن میں سے بال کی طرح نکال لوں گا۔ اگر تم اللہ کی نافرمانی ہر اتر آئے اور اس کی ناراضگی مول لیتے رہے تو پھر تم اس بے حد و بے کراں تکلیف کے خود ذمہ دار ہو گے۔
جب لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں قبرستان سے ڈر لگتا ہے تو مجھے ہنسی آجاتی ہے۔ بھلا اپنے گھر سے کیا ڈرنا؟ کوئی اپنے گھر جاتے ہوئے بھی ججھکتا ہے؟ ہاں اپنوں کو چھوڑنے کا دل کسی کا نہیں کرتا۔ ماں باپ بچے دوست احباب سب سے جدائی کون برداشت کرے گا۔ لیکن یہ وقتی جدائی ہے۔ سبھی کو تو جانا ہے۔ جلد یا بدیر۔ مسافر ٹھہر تھوڑی جاتے ہیں۔ وہ تو بس چلتے رہتے ہیں جب تک کہ منزل نہ آ جائے۔
مجھے بھی چلنا ہے۔ آپ کو بھی۔ ہو سکتا ہے میں پہلے چلا جاؤں۔ آپ بھی آجاؤ گے۔ اچھی طرح آنا۔ انشاء اللہ جنت میں ملیں گے۔ خدا حافظ!
مجھے وہاں جانا اچھا لگتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہاں میرے کسی عزیز کی قبر ہے۔ بس اس لیے کہ ایک دن میں نے بھی وہاں جانا ہے۔ میرا اصلی گھر یہیں ہو گا۔ یہیں۔۔ ان بہت سارے اونچے نیچے کچھ پکے کچھ کچے گھروں کے درمیان مجھے بھی رہنا ہے۔
بظاہر ان سب قبروں کے مکین خاموش ہیں لیکن یہ صرف مجھے اور آپ کو نظر آتا ہے۔ یہ خاموشی بولنے والی خاموشی ہے۔ یہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اس خاموشی میں بہت ساری آوازیں ہیں جو ہم سن سکتے ہیں اگر ہم غور کریں۔
ان میں سے کچھ آوازیں کہ رہی ہیں۔ آئے ہائے! اے کاش ہم زندگی میں نیک اعمال کر لیتے۔ اف ان آوازوں میں کتنا درد کتنی حسرت کتنی تکلیف ہے۔ کچھ اور آوازیں بھی ہیں جو بہت تازہ بہت پیاری ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں۔ واہ واہ! کاش زمین پر بسنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ زندگی میں صرف ایک بار سبحان اللہ کہنے کا کتنا اجر ہے تو وہ ایک لمحہ بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو کر نہ گزاریں۔
کبھی کبھی میں بہت دیر تک قبروں کو غور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ میرا دل کرتا ہے میں جان سکوں اس مکین کے ساتھ کیا گزری جب ملک الموت اس کو لینے آگئے۔ جب اس کے کانوں میں میوزک والے ہینڈ فری لگے ہوئے تھے تو اس کو ملک الموت اپنے سامنے دیکھ کر کیسا لگا؟ کوئی مکین ایسا بھی تو ہو گا جو تہجد کے سجدے میں ہی ملک الموت کے ساتھ چلا آیا۔ میری شدید خواہش ہے کہ میں اس مکین سے ریحان کے ان پھولوں کا رنگ پوچھ سکوں جو فرشتوں نے اس کے گھر سے لے کر یہاں اس قبرستان تک بچھا دیے تھے۔
کچھ قبریں بہت چھوٹی سی ہیں۔ یہ ننھے بچوں کی ہیں۔ ان قبروں پر گلاب اور موتیے کے پھول اگ چکے ہیں۔ اگر آپ نے زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے دونوں طرف پھول دیکھنے ہوں تو یہاں چلے آئیں۔
یہ سب کے سب مکین موت کے فرشتے ملک الموت کے ساتھ چلے آئے ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے نہیں آئے۔ انہیں لایا گیا ہے۔ مجھے بھی لے جایا جائے گا۔ میں مرنے کی تمنا نہیں کرتا لیکن میری خواہش ہے کہ میں ایک دن جب ملک الموت کو اپنے روبرو دیکھوں تو اس سے پوچھوں۔ کیا تم وہی ہو جو لوگوں کو ایک انجان سی دنیا میں لے جانے کے لیے آتے ہو؟ کیا تم وہی ہو جو کبھی روح نکالتے وقت دنیا جہاں کا درد دیتے ہو یا کبھی یوں نکال لیتے ہو جیسے پتہ ہی نہ لگے۔ میں نے تصور کیا کہ ملک الموت کہہ رہے تھے۔ روح نکلنے کی تکلیف کا انحصار تو خود تم پر ہے۔ اگر تم اللہ کے فرمانبردار بنے رہو اور تمھاری موت ایمان و تقوی پر آجائے تو میں تمھاری روح مکھن میں سے بال کی طرح نکال لوں گا۔ اگر تم اللہ کی نافرمانی ہر اتر آئے اور اس کی ناراضگی مول لیتے رہے تو پھر تم اس بے حد و بے کراں تکلیف کے خود ذمہ دار ہو گے۔
جب لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں قبرستان سے ڈر لگتا ہے تو مجھے ہنسی آجاتی ہے۔ بھلا اپنے گھر سے کیا ڈرنا؟ کوئی اپنے گھر جاتے ہوئے بھی ججھکتا ہے؟ ہاں اپنوں کو چھوڑنے کا دل کسی کا نہیں کرتا۔ ماں باپ بچے دوست احباب سب سے جدائی کون برداشت کرے گا۔ لیکن یہ وقتی جدائی ہے۔ سبھی کو تو جانا ہے۔ جلد یا بدیر۔ مسافر ٹھہر تھوڑی جاتے ہیں۔ وہ تو بس چلتے رہتے ہیں جب تک کہ منزل نہ آ جائے۔
مجھے بھی چلنا ہے۔ آپ کو بھی۔ ہو سکتا ہے میں پہلے چلا جاؤں۔ آپ بھی آجاؤ گے۔ اچھی طرح آنا۔ انشاء اللہ جنت میں ملیں گے۔ خدا حافظ!