میرے سوہنے موہنے بچو! عاکف میاں نےکچھ دن پہلے ہی ایک نئی
عادت بنا لی تھی۔ وہ تھی ہر ایک کی نقل اتارنا۔ کبھی وہ بھائی جان کی نقل اتارتے
کبھی بڑی آپا کی اور پھر خوب ہنستے۔ اس دن بھی جب بھائی جان کمرے سے نکلے اور امی
جان سے بولے۔
’’امی جان! میری شرٹ نہیں مل رہی۔کیا آپ نے کہیں رکھی
ہے؟‘‘
تو اس سے پہلے کہ امی جان کچھ کہتیں ، عاکف میاں بول پڑے۔
’’میری شرٹ نہیں مل رہی۔۔ میری شرٹ نہیں مل رہی ۔۔ ہی ہی
ہی!‘‘
امی جان نے عاکف میاں کو گھورا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر
باہر بھاگ گئے۔
’’امی جان ! میرا آج ٹیسٹ ہے۔ دعا کیجیے گا میرے اچھے نمبر
آئیں۔‘‘
عاکف میاں پھر کتنی ہی دیر تک ’’آج میرا ٹیسٹ ہے! آج میرا
ٹیسٹ ہے!‘‘ کہتے رہے اور آپا کو تنگ کر کے رکھ دیا۔
پیارے بچو! پھر ہوا یوں کہ عاکف میاں کے دوست زوہیب ان کے
گھر اپنا توتا لیے چلے آئے۔
’’عاکف! تم یہ توتاکچھ دنوں کے لیے اپنے پاس رکھ لو۔ ہم
نانو کے گھر رہنے جارہے ہیں۔ کچھ دنوں بعد آئیں گے۔تب تک تم اس کا خوب خیال
رکھنا۔‘‘
عاکف میاں نے امی جان سے پوچھا تو انہوں نے توتا رکھنے کی
اجازت دے دی۔ یہ بہت پیارا توتا تھا ۔ سبز رنگ کا اور بولنے والا۔ عاکف میاں نے
سوچا۔
’’آہا! کتنا مزہ
آئے گا۔ میں صبح اور شام توتے کے ساتھ کھیلوں گا۔ ‘‘
اگلی صبح عاکف میاں جلدی اٹھ گئے۔ منہ ہاتھ دھو کر وہ جلدی
سے توتے کے پنجرے کے پاس گئے اور بولے۔
’’میاں مٹھو! چوری کھاؤگے؟‘‘
توتا بھی فوراً بول
پڑا۔
’’میاں مٹھو! چوری کھاؤ گے!‘‘
’’ہائیں! میں تم سے پوچھ رہا ہوں ناں! کیا تم چوری کھاؤ
گے۔ میری امی جان بہت مزے کی چوری بناتی ہیں۔‘‘ عاکف میاں کہتے چلے گئے پھر انہوں
نے غور کیا توتا کہہ رہا تھا۔
’’ بہت مزے کی چوری بناتی ہیں! بہت مزے کی چوری بناتی
ہیں!‘‘
’’ہیں! چپ کر جاؤ۔ میری نقل مت اتارو۔‘‘ عاکف میاں زور سے
بولے۔
’’ مت اتارو ۔ مت اتارو۔‘‘ توتا عاکف میاں کی ہر بات دہراتا
جاتا۔
پھر ہوا یوں کہ عاکف میاں تنگ آگئے۔ صبح شام توتے کے ساتھ
کھیلنے کا سارا پلان خراب ہو گیا۔ توتا بہت باتونی تھااور وہ عاکف میاں کی ہر بات
کی نقل اتار دیتا تھا ۔
خیر! اگلے دن شام کو عاکف میاں نے سوچا۔ توتے کو سردی لگ
رہی ہو گی۔ انہوں نے امی جان سے کہا۔
’’امی جان! توتے کا پنجرہ کچن میں لے آؤں؟‘‘
’’ہاں لے آؤ اور یہاں شیلف پر رکھ دو۔ ‘‘ امی جان کچن سے
بولیں تو عاکف میاں نے توتے کا پنجرہ اٹھایا اور کچن میں لے آئے۔باتونی توتا ہلنے
والی سلاخ پر بیٹھا جھولے لے رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔
’’کچن میں لے آؤں! کچن میں لے آؤں!‘‘
’’امی جان!‘‘ عاکف میاں نے منہ بنا کر کہا۔’’یہ توتا میری
ہر بات کی نقل اتارتا ہے۔ بس! یہ مجھے اچھا نہیں لگا۔‘‘
’’ہمم کوئی بات نہیں۔ ‘‘ امی جان مسکراتے ہوئے بولیں۔وہ
کھاناپکانے میں مصروف تھیں۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی تو امی جان نے کہا۔
’’دیکھیں کون آیا ہے۔ پہلے پوچھ لیں۔شاید آپ کے ابا جان
ہی ہوں گے۔‘‘
عاکف میاں نے چپکے سے توتے کو دیکھا۔ وہ دال چنا کھا رہا
تھا جو ایک چھوٹی سی کٹوری میں پڑی تھی۔
’’ اس بار میں آہستہ سے بولوں گا تاکہ اسے پتہ ہی نہ
چلے۔‘‘ عاکف میاں نے سوچا اور دروازے کے
پاس جا کر آہستہ سے کہا۔
’’کون ہے؟‘‘
یہ ابا جان تھے جو توتے کے لیے پھل لائے تھے۔ عاکف میاں نے
ان کے ہاتھ سے پھلوں والا تھیلا لیا اور کچن کی جانب چل دیے۔ جب عاکف میاں کچن میں
پہنچے تو انہوں نے سنا۔ توتا کہہ رہاتھا۔
’’کون ہے ! کون ہے! کون ہے!‘‘
’’اف ! اس کے کان کتنے تیز ہیں!‘‘عاکف میاں نے جل کر سوچا۔
اب عاکف میاں کو کسی کی نقل اتارنا یاد ہی نہیں رہتا تھا ۔ بلکہ
وہ ہر وقت اسی کوشش میں ہوتے تھے کہ شرارتی توتا کہیں ان کی آواز نہ سن لے ورنہ
وہ ان کی بات بہت دیر تک دہراتا رہے گااور انہیں خوب تنگ کرے گا۔
میرے پیارے بچو! کچھ دنوں
بعد زوہیب نانو کے گھر سے واپس آگیا اور اپنا توتا لے گیا۔ ان سارے دنوں
میں عاکف میاں کو ایک بات سمجھ میں آگئی
تھی۔ وہ یہ کسی کی نقل اتارنا اچھی عادت نہیں۔ ایسے کرنے سے دوسرے کو پریشانی ہوتی ہے اور اسے بالکل
اچھا نہیں لگتا۔ آپ بھی اپنے سے چھوٹے یا بڑے بہن بھائی یا دوست کی نقل کبھی نہ اتاریں۔