تم تم چیونٹا


میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں آنے والی تھیں۔ ملکہ چاہتی تھی سب چیونٹیاں جلدی جلدی کام ختم کر لیں۔ نم نم اور تم تم دونوں بہن بھائی تھے۔ نم نم تو سارا دن خوراک اکھٹی کرتی رہتی جبکہ تم تم  چیونٹا سستی سے اپنے بستر پر پڑ ا رہتا۔ اس نے کبھی کوئی کام کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’تم تم!  تھوڑی سی حرکت کر لیا کرو۔ دیکھو تو! میں نے یہ ساتھ والا گودام کیسے بھر دیا ہے۔ ‘‘ نم نم نے بھائی کو ڈانٹا اور گودام کی طرف اشارہ کیا۔وہ چھوٹا سا ایک کمرہ تھا جو چینی کے ذروں، چاول کے دانوں اور ڈبل روٹی کے ننھے ٹکڑوں سے بھر چکا تھا۔
’’ہونہہ! آپا تم ہو ناں! مجھے کیا ضرورت ہے اتنی محنت کرنے کی۔ ویسے بھی زیادہ چلنے سے تھک جاتا ہوں۔ ‘‘ تم تم نے کہا اور کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔


صبح ہوتے ہی نم نم ، تم تم کو سوتا چھوڑ کر نکل جاتی۔ سارے کمروں میں گھومتی اور جو بھی کھانے کو ملتا گودام میں لا کر رکھ دیتی۔ ملکہ اس کی محنت سے بہت خوش ہوتی۔کئی بار اس کو انعام میں کیک کا مزیدار ٹکڑا بھی ملا جس پر سفید ملائی لگی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’اچھا! تم نے غور سے دیکھا تھا؟‘‘ ملکہ پریشان ہو گئی تھی۔ جاسوس چیونٹی  جِم جِم نے بتایا تھا کہ اس نے ابھی ابھی کچن کے شیلف پر کیڑوں والا نیا سپرے دیکھا ہے۔
ملکہ  نے جلد ہی  ساری چیونٹیوں کو بڑے کمرے میں اکھٹا کر لیا۔
’’جِم جِم اور اس کی ٹیم نے ابھی ابھی ہمیں بتایا ہے کہ کچن میں کیڑوں کو مارنے والا نیاسپرے آچکا ہے۔ جلد ہی  حملہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں کچھ ہی دیر میں سارے سامان کے ساتھ کیاری والے گھر میں شفٹ ہونا ہے۔ فوراً سب تیاری کر یں اور چل پڑیں۔‘‘ ملکہ نے کہا اور اپنے محل میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اٹھو تم تم! ہم جارہے ہیں۔ کیارے والے گھر میں۔ تم بھی تیاری کرو۔‘‘ نم نم نے بھائی کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اوں ہوں۔ سونے دو ناں! ابھی تو میری آنکھ لگی تھی۔ ‘‘  تم تم آنکھیں ملتا ہوا بولا۔
’’جِم جِم نے بتایا ہے کہ گھر کا مالک کیڑوں والا نیا سپرے لے آیا ہے جو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس سے سانس بھی بند ہوجاتا ہے۔ ‘‘ نم نم  کہ رہی تھی۔
’’اچھا! اوہ! چلو پھر جلدی کرو۔ ‘‘ تم تم یہ سنتے ہی اٹھ بیٹھا اور سامان کے دو بیگ اٹھا لیے۔ نم نم نے اس کے مقابلے میں تین بڑے اٹھا رکھے تھے اور وہ چل بھی تیز تیز رہی تھی۔
تم تم بار بار قطار میں سب سے پیچھے رہ جاتا۔ اس کو اتنا زیادہ اور تیز چلنے کی عادت کہاں تھی۔قطار آدھی سے زیادہ باہر آچکی تھی۔  اچانک سپرے کی شوں شوں کی آواز آئی ۔ ساتھ ہی سب چیونٹوں کا جیسے دم گھٹنے لگا۔ وہ بھاگ بھاگ کر کیاری والے گھر میں  پہنچنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد نم نم اپنے نئے کمرے میں سامان سیٹ کر چکی تھی۔ ملکہ نے سب سے پہلے گودام بھروائے تھے۔ یہ سارابڑا سا گھر ان سب نے دو سال پہلے سے بنا کر رکھا ہوا تھا۔ تاکہ خطرے کے وقت یہاں شفٹ ہو ا جا سکے۔
نم نم نے کمرے سے نکل کر دیکھا۔ اس کو تم تم کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
’’ارے! تم نے میرے بھائی تم تم کو تو نہیں دیکھا؟ ‘‘ نم نم کیاری میں ہر گزرتی چیونٹی سے پوچھ رہی تھی۔  
’’ہاں یاد آیا! ‘‘ اچانک ایک چھوٹی سی چیونٹی نے بتایا۔
’’تم تم کو سپرے بہت زیادہ لگ گیا تھا۔ وہ کیاری سے باہر بے ہوش پڑا ہے۔‘‘
نم نم یہ سنتے ہی بھاگی۔ تم تم بڑی مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ سپرے نے اس کا سانس جیسے بند ہی کر دیا تھا۔
’’تم تم ! فکر نہ کرو۔ میں آرہی ہوں۔‘‘ نم نم نے کہا اور کیاری کی باڑ پھلانگ کر تم تم کے پاس پہنچ گئی۔ پھر وہ بڑی مشکل سے تم تم کو گھسیٹ کر ڈاکٹر چیونٹے کے پاس لے آئی۔ انہوں نے تم تم کو دوا دی اور ایک ٹیکہ بھی لگایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نم نم! میں بھی کل سے تمھارے ساتھ خوراک اکھٹی کرنے جایا کروں گا۔ ‘‘ تم تم شرمندگی سے کہ رہا تھا۔ ’’مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کام کرنے سے خود ہماری صحت بھی تو ٹھیک رہتی ہے۔ پھر ملکہ کہتی ہیں۔ خود سے کھانا ڈھونڈ کر لانے اور کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ ‘‘
نم نم بولی۔ ’’ٹھیک ہے۔ اب سو جاؤ۔ ابھی کچھ دن تک تو تم نے آرام کرنا ہے۔ ڈاکٹرنے کہاہے۔‘‘
’’اچھا!  واقعی! پھر تو مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ ذرا مجھے وہ والی مٹھائی تو لا دو جو تم نے گودام کے سب سے اوپر والے دراز میں رکھی ہے!‘‘ تم تم نے شرارت سے کہا تو نم نم کو ہنسی آگئی۔