پ۔ پڑھیں فارسی بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل



بہت پہلے کی بات ہے  جب فارسی کو دیگر زبانوں پرفوقیت  دی جاتی تھی اور اس کو سیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے ایران کے شہرشیراز  آیاکرتے تھے۔ ایران  ہی کے ایک دور دراز کے گاؤں میں رہنے والے عبداللہ صاحب نے بھی اپنے اکلوتے بیٹے سلمان کو فارسی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے  شیراز  کی مشہور جامعہ میں داخل کروادیا تھا۔
آج کئی ماہ بعد سلمان کا شیراز سے خط کیا آیا، گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اسےتعلیم حاصل کرتے  کئی برس ہو چکے تھے اورآج اس نے اپنی واپسی کی اطلاع دی تھی۔ 
دادی بلقیس جنہیں  گزشتہ کئی دنوں سے گھٹنوں کی تکلیف تھی، اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر زلیخا کی شامت آگئی۔ زلیخا ان کے گھر کی واحد ملازمہ تھی۔ گھر میں نفوس ہی کتنے تھے۔ ایک دادی بی ، ایک عبداللہ صاحب اور ان کا اکلوتا بیٹا سلمان۔ اس کو بھی عبداللہ صاحب نے اپنی والدہ کی بھرپور مخالفت کے باجود شیراز  بھیج دیا تھا۔
’’زلیخا ! مجھے ہر جگہ گرد نظر آرہی ہے۔کیا تو نے ابھی تک صفائی نہیں کی؟ آئے ہائے ! تنخواہ لینےکے لیے تو ہٹی کٹی ہے اورہاتھ ایسے چلتے ہیں جیسے مردے کے ہاتھ ہوں۔‘‘
’’دادی بی! پہلی بات تو یہ ہے کہ مردہ ہاتھ نہیں ہلا سکتا۔ ‘‘ زلیخا نے کب ادھار رکھنا سیکھا تھا۔ پورے محلے میں اس کی قینچی جیسی زبان کے چرچے تھے۔پھر اس نے حسب عادت فرشی نشست کے دونوں گدّے اٹھا کر آپس میں زور سے ٹکرائے اور کہنے لگی۔


’’اور دوسری بات یہ ہے دادی بی کہ لائیے آپ کا چشمہ صاف کر دوں تاکہ آپ کو وہ ہ ہ  ... دور تک چمکتا دمکتا فرش نظر آسکے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے کھڑکی سے لے کر دروازے تک کا اشارہ کیا۔ پھر تیزی کے ساتھ سپڑ سپڑ وائپر چلانے لگی۔

دادی   بلقیس نے اسی گرد آلود چشمےسے گھو ر گھور زلیخا کو دیکھا ۔وہ زلیخا کی اس عادت سے تنگ تھیں۔ زلیخا برتن دھوتی تو ڈھا ڈھز ڈھزز کی آوازیں آتیں، جھاڑو لگاتی توچھس چھسس کی تیز صدائیں گونجتیں، وائپر لگاتی تو سپڑ سپڑ کی اونچی بے ہنگم  ندا ئیں کانوں کے اندر تک گھسنے لگتیں۔ یوں لگتا گھر بھر میں بھونچال آیا ہوا ہو۔ لیکن وہ صفائی اچھی کرتی تھی اور باورچی خانے کا کام بھی جھٹ پٹ نمٹا دیا کرتی تھی۔ سو دادی بھی خاموشی سے برداشت کر لیا کرتی تھیں۔
عبداللہ صاحب بیٹے کے آنے سے خوش تو تھے لیکن کچھ گم صم بھی دکھائی دیتے تھے ۔ دادی بی نے محسوس کر لیا لیکن وہ تسلی سے بیٹھ کر پوچھ نہ سکیں ۔ گھر بھر کی اور خاص طور پر سلمان کے کمرے کی تفصیلی صفائی، پھر اس کے پسندیدہ پکوان بنانے میں وہ اتنا تھک چکی تھیں کہ دوپہر کا کھانا کھاتے ہی سونے چلی گئیں۔
’’اچھا بیٹا! پھر آگے کیا سوچا تم نے؟‘‘ عبداللہ صاحب نےرات کے  کھانے کی میز پر بولے۔
’’ارے کھانا تو کھا لینے دو میرے بچے کو۔  گھنٹہ بھر پہلے تو آیا ہے اور سوال جواب شروع۔‘‘ دادی بی خفا ہوئیں اور زرشک پلاؤکی ٹرے سلمان کے آگے رکھتے ہوئے بولیں۔
’’اورلے بیٹا! تو تو کچھ کھا ہی نہیں رہا۔‘‘
دادی بی کے اس پیار اور ان کے پکے کھانوں کی خوشبو کو سلمان نے ہر روز یاد کیا تھا۔ اس نے اٹھ کر ان کے ہاتھ چوم لیے پھرقالین پر بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ لیا۔
’’دادی!  اب آ گیا ہوں تو آپ کے پکائے ہوئے سب کھانے کھاؤں گا ۔‘‘
عبداللہ صاحب پیار و محبت کے اس مظاہرے سے بے نیاز کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ وہ فکرمند دکھائی دیتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی ماہ سے افواہ گردش کر رہی تھی کہ کارخانے کا مالک  ۵۰ سال سے زائد افراد  نوکری سے فارغ کرنے والا  ہے۔ آخر آج بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ عبداللہ صاحب کو نوکری سے برخواستگی کا خط مل گیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئے  اور کرسی پر ڈھے گئے۔
سلمان کو آئے تین ماہ سے زائد عرصہ بیت گیا تھا ۔ ایک چھوٹے سے سکول میں اسے بطور مدرس ، ملازمت مل گئی تھی  لیکن عبداللہ صاحب بخوبی جانتے تھے ،سلمان کی قلیل تنخواہ گھر کے اخراجات اور دیگر مصارف کو پورا کرنے کے لیے یکسر ناکافی تھی۔ انہیں خود بھی کچھ نہ کچھ کرنا تھا تاکہ جہاں اخراجات بخوبی پورے ہو جائیں وہاں اس عمر میں ان کے لیے ایک اچھی مصروفیت کا انتظام بھی ہو جائے۔
سو، کئی دن سے بیٹھک میں سلمان اور عبداللہ صاحب کی خفیہ میٹنگ چل رہی تھی جو دادی  بلقیس کے اندر داخل ہوتے ہی عام سی گپ شپ میں بدل جاتی۔ آخر کار ایک صبح عبداللہ صاحب نے ناشتہ کرتے ہوئے سرسری سے اندازمیں کہا۔
’’اماں! میں  سوچ رہا ہوں کہ باہر کی طرف کھلنے والے کمرے  میں دکان کھول لوں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نےسلمان کی جانب دیکھا اور ذرا سا کھنکھارے  ۔
’’ہائیں! کیا مطلب! بیٹا! یہ تو کیسی باتیں کر رہا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ نان کا بڑا سا نوالہ نگلتا سلمان کچھ کہنا شروع کرتا دادی بی غصے سے بولتے چلی گئیں۔’’ دکانداری ہماری سات پشتوں میں سے کسی نے نہ کی۔ بھلا یہ ہی کام رہ گیا تھا کرنے کو۔ دونوں باپ بیٹا اتنے پڑھے لکھے اور کام کیا سوچ بیٹھے ہیں۔‘‘
’’ دادی بی! دیکھیں! بابا کی ملازمت تو ختم ہو گئی ہے ۔آپ بھی جانتی ہیں میری تنخوا ہ میں گھر کا خرچہ چلانا ممکن نہیں ہے۔ اگر  ہم دکان کھول لیں توآمدنی بھی آتی رہے گی اور بابا بھی مصروف رہیں گے۔‘‘ سلمان نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
دادی بی نےکوئی جواب نہ دیا اور میزسے اٹھ کرچلی گئیں۔
عبداللہ صاحب کو معلوم تھا آج نہیں تو کل دادی بی مان ہی جائیں گی ۔اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس عمر میں ان کے پاس کوئی ایسا ہنر نہ تھا جس کو بروئے کار لاکروہ ظالم دنیا کے دانتوں  سے اپنے رزق کا نوالہ چھین سکتے یا سلمان کے کمائے جانے والے چند ریالوں کو  کو الہ دین کے چراغ سےرگڑ کر سونے کے سکوں میں بدل سکتے۔
لے دے کر ان کے پاس ایک گھر ہی تھا سو اسی کے ایک کمرے کو استعمال کرنے کا سوچ کر انہوں نے تیزی سے دکان کے پراجیکٹ  پر کام شروع کر دیا۔ یہاں سلمان کی خوبیاں سامنے آنے لگیں۔ وہ لوگوں سے ڈیل کرنے کا فن جانتا تھا۔سو جو گاہک بھی ان کی کریانے کی دکان پر آتا، چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ لے کر ہی جاتا۔
کئی ماہ گزر گئے۔ عبداللہ صاحب کی محنت اور سلمان کی جوش اور جذبے نے کام کر دکھایا تھا۔ اب وہ کچھ ہی عرصے میں بڑے بازار  میں کرائے پر دکان لینے کا سوچ رہے تھے۔
دادی بلقیس نے اگرچہ کب کی  ہار مان لی تھی اور وہ بظاہر عبداللہ صاحب اور سلمان کی خوشی میں خوش تھیں۔ البتہ زلیخا بے چاری اس وقت سے ان کے زیر عتاب تھی جب سے اس کے منہ سے وہ ایک جملہ نکلا۔
ہوا یہ کہ  جب زلیخا کو معلوم ہوا کہ بیٹھک میں کریانے کی دکان کھلنے جارہی ہے تو وہ کہنے لگی۔
’’لیں دادی بی! بھلایہ کیا بات ہوئی۔ اپنے سلمان بھیا اتنی مشہور جامعہ سے پڑھائی کر  کےآئے اور پھر دکانداری کرنے لگے۔ پڑھیں فارسی بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل!‘‘ یہ کہہ کر اس نے حسبِ عادت فرشی نشست کے گدّے زور سے آپس میں ٹکرائے۔اور یہ آخری دن تھا جب  گدّوں کے آپس میں ٹکرانے سے ٹھاہ ٹھس ٹھس کی آوازیں آئیں۔دادی بلقیس کے غضب کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ایک تو وہ پہلے ہی اس موضوع کو لے کر نہایت  حسّاس  ہوچکی تھیں، اوپر سے بغیر فل اسٹاپ اور کومے کے ، زلیخا کی چلتی زبان۔
سو، یہ تو ہونا ہی تھا ۔ اس دن سے نہ باورچی خانے سے ڈھزا ڈھز ڈھز کی آوازیں آتی ہیں نہ  تنکوں والا جھاڑو چھس چھس کی آواز پیدا کرپاتا ہے۔ زلیخا لب سی  کر صفائی کرتی ہے، انتہائی خاموشی سے کھانا بناتی ہے  اورقہوے کی خالی پیالیاں یوں اٹھا اٹھا  کر رکھتی جاتی  ہے جیسے وہ گتّے کی بنی ہوں!
 مجھے یقین ہے کئی دن بعد سہی،  دادی بلقیس کا غصہ ختم ہو گیا ہو گا لیکن زلیخا کے منہ سے نکلا ہوا جملہ محاورہ بن کر ہماری کتابوں میں آج بھی زندہ ہے۔